*سابق وزیراعظم عمران خان کا اڈیالہ جیل سے قوم کے نام پیغام*
“اے طائر لاہوتی اس رزق سے موت اچھی
جس رزق سے آتی ہو پرواز میں کوتاہی
غلامی کی زندگی سے موت بہتر ہے ۔ میں پہلے صرف تحریک انصاف سے منسلک افراد کو احتجاج کی کال دیتا رہا ہوں مگر 8 فروری کے بعد اس ملک میں جمہوریت کے تابوت میں جو آخری کھیل ٹھونکا گیا ہے اسکے بعد پوری قوم کا فرض ہے کہ وہ اس ظلم کے خلاف باہر نکلیں۔ جس طرح آپ لوگ 8 فروری کو ہر مشکل کے باوجود اپنے ووٹ کی طاقت کا مظاہرہ کرنے باہر نکلے تھے اسی جذبے سے 24 نومبر کو بھی نکلیں ۔
ملک میں اس وقت جمہوریت کے بنیادی ستون :قانون کی حکمرانی، صاف و شفاف انتخابات اور آزادی اظہار رائے تینوں معطل ہیں ۔ میڈیا پر سنسرشپ نافذ ہے، میرے بیانات نشر کرنے پر مکمل طور پر پابندی عائد ہے، اس کے علاوہ میڈیا ہر طرح سے پابندی کا شکار ہے، عوام کی زبان بندی کے لیے انٹرنیٹ میں بار بار خلل اندازی سے اس سال ملک کو 550 ارب روپے کا نقصان ہو چکا ہے اور اخبارات کے مطابق پاکستان میں انٹرنیٹ کی کارکردگی صرف 27 فیصد تک محدود ہو چکی ہے۔ یہ سب گھناونے اقدامات صرف اس لیے اٹھائے جا رہے ہیں تا کہ کسی طرح تحریک انصاف کو کچلا جا سکے اور تحریک انصاف کی آواز دبائی جا سکے ۔
شہباز گل سے لیکر انتظار پنجوتھہ تک تحریک انصاف کے کارکنان کے ساتھ جبری گمشدگیوں، فسطائیت اور تشدد کا ایک پورا سلسلہ ہے جس میں ابھی تک کسی کو انصاف نہیں ملا۔ پنجاب حکومت اور پولیس یہ کہہ کر جان چھڑا لیتی ہے کہ ہمیں ایسا کرنے کو فوج کہہ رہی ہے۔ فوج ایک قومی ادارہ ہے، یہ کسی ایک شخص یا پارٹی کی نہیں اور ان واقعات سے ہمارے قومی سلامتی کے ادارے کی بدنامی ہو رہی ہے۔
تحریک انصاف ہر طرح کے مشکل وقت کے لیے ہمہ وقت تیار رہتی ہے اور اب بھی تیار ہے۔ تحریک انصاف بیرونی مداخلت کے خلاف کھڑی ہوئی جو ڈونلڈ لو اور جنرل باجوہ کی ملی بھگت تھی۔ جس کے بعد بوگس انتخابات کروا کہ بوگس اسمبلیاں تخلیق کی گئیں جنھوں نے عدلیہ کی آزادی پر حملہ کیا اور جمہوریت کا وجود ، آزاد عدلیہ کے بغیر ممکن ہی نہیں
میں ملک کے لیے ہمیشہ مذاکرات کے لیے تیار رہا ہوں ۔ نگران حکومت سے جب بھی مذاکرات کی بات کی انھوں نے اسکا جواب فسطائیت سے دیا ہمارے لوگوں کو جیلوں میں ڈالا۔ سٹالن کی آمریت میں بھی ایسا جبر نہیں ہوا جیسا رجیم چینج کے بعد کے دورانیے میں تحریک انصاف کے ساتھ ہو رہا ہے ۔ ہم نے جب وقت پر انتخابات کا کہا تو انھوں نے نواز شریف اور قاضی فائز عیسی کے آنے کا انتظار کیا ۔ یہ کونسی جمہوریت ہے جس میں بر وقت انتخابات کو من پسند افراد کے لیے معطل کر دیا جائے اسلیے مذاکرات کا نہ ہونا ہماری نہیں انکی غلطی ہے ۔
24 نومبر کو احتجاج میں شامل ہونا سب پر لازم ہے ۔ اگر تحریک انصاف کا کوئی بھی رہنما یا ٹکٹ ہولڈر احتجاج میں شرکت کو یقینی نہیں بنا سکتا تو اسے جماعت سے لاتعلقی کر لینی چاہیے کیونکہ یہ فیصلہ کن وقت ہے جب پوری قوم آزادی کے لیے نکلے گی اور اس موقع پر کسی قسم کا عذر قوم کے لیے قابل برداشت نہیں ہو سکتا ۔
یہ موقع پاکستان کو حقیقی آزادی دلانے کا ہے ۔ غلام قومیں تو اپنی موت آپ مر جاتی ہیں اسی لیے ہمیں بحیثیت قوم موت کو غلامی پر ترجیح دینی ہو گی۔ لہذا 24 نومبر کی کال صرف تحریک انصاف کے لیے نہیں بلکہ پوری قوم کے لیے ہے۔
بیرون ملک مقیم پاکستانی تو آزادی اور جمہوریت کا مطلب بہت بہتر سمجھ سکتے ہیں جتنا وہ لوگ اپنے ممالک میں آزاد ہیں ویسی آزادی کا مطالبہ اپنے ہم وطن پاکستانیوں کے لیے بھی کریں ۔ اوورسیز پاکستانی بھی اپنے اپنے ملک میں احتجاج ریکارڈ کروائیں اور تحریک انصاف کی فنڈنگ میں بھی بھرپور حصہ لیں-“
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں