PTI

جمعرات، 21 نومبر، 2024

 5 اگست 2023 سے اڈیالہ میں قید عمران خان کو 28 ستمبر 2024 کے مقدمے میں گرفتار کیا گیاہے۔۔۔۔_*🤬

بدھ، 20 نومبر، 2024

 *_‏عمران خان کو رہا کروانے اور مطالبات منوا کر ہی دم لیں گے،مذاکرات عمران خان کی رہائی سے شروع ہوں گے اور آگے بڑھیں گے، علی امین گنڈا پور کا اعلان۔

 🚨 ‏عمران خان نو مئی کے 8 مقدمات میں 30 نومبر تک جوڈیشل ریمانڈ پر ہیں۔ نو مئی کے مقدمات میں ضمانت ہونے کے بعد عمران خان کی رہائی ممکن ہوگی۔

 بریکنگ نیوز 🔥

اسلام آبادہائیکورٹ کا بانی پی ٹی آئی کو رہا کرنے کاحکم❤️✌️

 انٹرنیشنل دباؤ بھی ہے اور پی ٹی آئی کی تیاری بھی بہت تگڑی ہے احتجاج کے لئے۔۔۔


اسٹیبلشمنٹ نے اس حکومت کو جتنا نچوڑنا تھا نچوڑ لیا ہے لگتا ہے اب وہ بھی ان کے لئے مزید عوامی نفرت نہیں مول لینا چاہتے۔۔۔


عمران ریاض خان

 🚨💥عمران خان کی توشہ خانہ میں ضمانت ہو گی یا نہیں*

*سماعت جاری🔥🚨

منگل، 19 نومبر، 2024

final call

 “ہمیں کر دکھانا ہے، سب کو بتانا ہے

یہ پاک سر زمین، اس کو بچانا ہے


اے میرے نوجوان، تُو قدم تو بڑھا

آوازِ انقلاب، پروازِ انقلاب!”


#FinalCall

#حق_کی_جیت_ہو_گی

 *عنقریب شارک مچھلی سمندر میں انٹرنیٹ کیبل پر حملہ کرنے والی ہے اور پاکستان میں24 نومبر تک انٹرنیٹ بند یا سپیڈ میں کمی آسکتی* ہے🫣

 ‏لاہور کی انسداد دہشت گردی عدالت نے وزیر اعلیٰ علی امین گنڈاپور کے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کردیے ۔۔تھانہ مناواں پولیس نے مقدمے میں ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری کی استدعا کی



 *_‏بات سیدھی سیدھی ہے کہ عمران خان نے فیصلہ سازوں کو آخری موقع دیا ہے کہ جمعرات تک آ کر معافی مانگ لو ورنہ پھر 24 نومبر کو معافی مانگنے کا موقع بھی نہیں ملے گا_*🔥

 *_‏توشہ خانہ کیس میں عمران خان کو ضمانت ملتی ہے تو وہ 24 نومبر کا احتجاج خود لیڈ کریں گے علیمہ خان 🔥_*

 🚨🇧🇫 *عمران خان کی اڈیالہ جیل میں گفتگو۔۔!!!*


‏جمہوریت کے 3 ستون میڈیا، عدلیہ اور عوام کو اِنہوں نے تباہ کر دیا، میڈیا کا گلہ گھونٹ دیا گیا ہے، VPN پر پابندی لگا دی گئی، قاضی فائز عیسیٰ کیا کارنامے انجام دے کر گیا ہے، چوروں کو پارلیمنٹ میں بٹھا دیا گیا، 

*عمران خان*

 *‏اوورسیز پاکستانیوں سے اپیل*


*پاکستان تحریک انصاف کو پچھلے ڈیڑھ سال سے فنڈنگ کے شدید مسائل کا سامنا ہے*


*فنڈ ریزنگ ویب سائٹ: ptioverseas.com‎*


*24 نومبر کی فائنل کال سے پہلے ذیادہ سے ذیادہ افراد کو اس ویب سائٹ کے ذریعے فنڈنگ کی تلقین کریں اور حقیقی آزادی کی جدوجہد میں اپنا حصہ ڈالیں🙏❤️*

 *یاد رکھیں غلامی سے نکلو گے تو نسلیں آزاد ہوں گی اور ترقی کریں گی۔*


*24 نومبر کی اہمیت کو سمجھیں*

 *سابق وزیراعظم عمران خان کا اڈیالہ جیل سے قوم کے نام پیغام*


‏“اے طائر لاہوتی اس رزق سے موت اچھی 

جس رزق سے آتی ہو پرواز میں کوتاہی


غلامی کی زندگی سے موت بہتر ہے ۔ میں پہلے صرف تحریک انصاف سے منسلک  افراد کو احتجاج کی کال دیتا رہا ہوں مگر 8 فروری کے بعد اس ملک میں جمہوریت کے تابوت میں جو آخری کھیل ٹھونکا گیا ہے اسکے بعد پوری قوم کا فرض ہے کہ وہ اس ظلم کے خلاف باہر نکلیں۔ جس طرح آپ لوگ 8 فروری کو ہر مشکل کے باوجود اپنے ووٹ کی طاقت کا مظاہرہ کرنے باہر نکلے تھے اسی جذبے سے  24 نومبر کو بھی نکلیں ۔ 


ملک میں اس وقت جمہوریت کے  بنیادی ستون :قانون کی حکمرانی، صاف و شفاف انتخابات اور آزادی اظہار رائے  تینوں معطل ہیں ۔ میڈیا پر سنسرشپ نافذ ہے، میرے بیانات نشر کرنے پر مکمل طور پر پابندی عائد ہے، اس کے علاوہ میڈیا ہر طرح سے پابندی کا شکار ہے، عوام کی زبان بندی کے لیے انٹرنیٹ میں بار بار خلل اندازی سے اس سال ملک کو 550 ارب روپے کا نقصان ہو چکا ہے اور اخبارات کے مطابق پاکستان میں انٹرنیٹ کی کارکردگی صرف 27 فیصد تک محدود ہو چکی ہے۔ یہ سب گھناونے اقدامات صرف اس لیے اٹھائے جا رہے ہیں تا کہ کسی طرح تحریک انصاف کو کچلا جا سکے اور تحریک انصاف کی آواز دبائی جا سکے ۔ 


شہباز گل سے لیکر انتظار پنجوتھہ تک تحریک انصاف کے کارکنان کے ساتھ  جبری گمشدگیوں، فسطائیت اور تشدد کا ایک پورا سلسلہ ہے جس میں ابھی تک کسی کو انصاف نہیں ملا۔ پنجاب حکومت اور پولیس یہ کہہ کر جان چھڑا لیتی ہے کہ ہمیں ایسا کرنے کو فوج کہہ رہی ہے۔ فوج ایک قومی ادارہ ہے، یہ کسی ایک شخص یا پارٹی کی نہیں اور ان واقعات سے ہمارے قومی سلامتی کے ادارے کی بدنامی ہو رہی ہے۔ 


تحریک انصاف ہر طرح کے مشکل وقت کے لیے ہمہ وقت تیار رہتی ہے اور اب بھی تیار ہے۔ تحریک انصاف بیرونی مداخلت کے خلاف کھڑی ہوئی جو ڈونلڈ لو اور جنرل باجوہ کی ملی بھگت تھی۔ جس کے بعد بوگس انتخابات کروا کہ بوگس اسمبلیاں تخلیق کی گئیں جنھوں نے عدلیہ کی آزادی پر حملہ کیا اور جمہوریت کا وجود ، آزاد عدلیہ کے بغیر ممکن ہی نہیں

میں ملک کے لیے ہمیشہ مذاکرات کے لیے تیار رہا ہوں ۔ نگران حکومت سے جب بھی مذاکرات کی بات کی انھوں نے اسکا جواب فسطائیت سے دیا ہمارے لوگوں کو جیلوں میں ڈالا۔ سٹالن کی آمریت میں بھی ایسا جبر نہیں ہوا جیسا رجیم چینج کے بعد کے دورانیے میں تحریک انصاف کے ساتھ ہو رہا ہے ۔ ہم نے جب وقت پر انتخابات کا کہا تو انھوں نے نواز شریف اور قاضی فائز عیسی کے آنے کا انتظار کیا ۔ یہ کونسی جمہوریت ہے جس میں بر وقت انتخابات کو من پسند افراد کے لیے معطل کر دیا جائے اسلیے مذاکرات کا نہ ہونا ہماری نہیں انکی غلطی ہے ۔


24 نومبر کو احتجاج میں شامل ہونا سب پر لازم ہے ۔ اگر تحریک انصاف کا کوئی بھی رہنما یا ٹکٹ ہولڈر احتجاج میں شرکت کو یقینی نہیں بنا سکتا تو اسے جماعت سے لاتعلقی کر لینی چاہیے کیونکہ یہ فیصلہ کن وقت ہے جب پوری قوم آزادی کے لیے نکلے گی اور اس موقع پر کسی قسم کا عذر قوم کے لیے قابل برداشت نہیں ہو سکتا ۔ 


یہ موقع پاکستان کو حقیقی آزادی دلانے کا ہے ۔ غلام قومیں تو اپنی موت آپ مر جاتی ہیں اسی لیے ہمیں بحیثیت قوم موت کو غلامی پر ترجیح دینی ہو گی۔ لہذا 24 نومبر کی کال صرف تحریک انصاف کے لیے  نہیں بلکہ پوری قوم کے لیے ہے۔ 


بیرون ملک مقیم پاکستانی تو آزادی اور جمہوریت کا مطلب بہت بہتر سمجھ سکتے ہیں جتنا وہ لوگ اپنے ممالک میں آزاد ہیں ویسی آزادی کا مطالبہ اپنے ہم وطن پاکستانیوں کے لیے بھی کریں ۔ اوورسیز پاکستانی بھی اپنے اپنے ملک میں احتجاج ریکارڈ کروائیں اور تحریک انصاف کی فنڈنگ میں بھی بھرپور حصہ لیں-“



 ۲۴ نومبر تاریخ بنانے کے لیے خود بھی تیار رہنا ہے، اور اپنے عزیز و اقارب کو بھی اس حوالے سے تیار کرنا ہے۔


#FinalCall

#حق_کی_جیت_ہو_گی

 فخر محسوس ہوتا ہے کہ ہم ایک بہادر اپنے نظریئے پر قائم رہنے والے اپنے رب پر پکا بھروسہ کرنے والے لیڈر کے ووٹر سپورٹر ہیں، کون سی زلالت نہیں ہے جو خان کے ساتھ نہیں کی گئی، جیل کی سختی اسقدر کہ پسینے سے کپڑے ہی پھٹ جائیں، ذہنی ٹارچر اتنا کہ تمام لیڈر شپ بیوی بہنیں بھانجا بے گناہ قید، الیکشن چھین لیا گیا، گولیاں کھا لیں پر وہ اپنے مقصد آزادی سے پیچھے نہیں ہٹ رہا اسی طرح اس کے سپورٹر بھی بار بار مار کھانے کے بعد بھی نہیں مان رہے اور خان کی ہر پکار پر شڑکوں پر ہوتے ہیں، اب انشاء اللہ 24 نومبر کو تاریخ رقم ہونے جا رہی ہے آزادی سے حقیقی آزادی کی تلاش میں خان کے متوالے وطن پرست ایک بار پھر شیل لاٹھیاں اور گولیاں کھانے اپنے ہی دارالحکومت آ رہے ہیں، کپتان کا اپنی عوام پر بھروسہ ہے اور خان کا یقین بتا رہا ہے کہ ہم اپنی منزل یعنی حقیقی آزادی حاصل کرنے کے نہایت قریب ہیں


 🚨‏یہ مشن اب صرف عمران خان کا نہیں، یہ آپ کا، میرا، اور ہر اُس پاکستانی کا مشن بن چکا ہے۔ ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ جب عوام متحد ہو کر اپنی طاقت کو پہچان لیتی ہے تو وہ کوئی بھی جابرانہ نظام دھڑام سے گرانے کی طاقت رکھتی ہے۔


برلن کی دیوار کا گرنا ایک ایسی مثال ہے، جہاں مشرقی جرمنی کے عوام نے جبر، قید و بند اور آزادی کی کمی کے خلاف بھرپور احتجاج کیا۔ ان کے اتحاد اور عزم نے دیوار کو گرا دیا، جو دہائیوں تک آزادی کی راہ میں رکاوٹ بنی ہوئی تھی۔ یہ صرف دیوار کا گرنا نہیں تھا، بلکہ اس نے ثابت کیا کہ اگر عوام کی طاقت جاگ جائے تو سب کچھ ممکن ہے۔ 


فلپائن کا پیپلز پاور انقلاب بھی ایک جیتی جاگتی مثال ہے۔ مارکوس کے آمریت کے خلاف لاکھوں لوگوں کا متحد ہونا اور ایک پرامن تحریک کا حصہ بننا، یہ ثابت کرتا ہے کہ عوام جب سڑکوں پر اُتر آئیں تو کوئی بھی ظالم نظام نہیں ٹک سکتا۔ ان کی طاقت نے نہ صرف آمریت کا خاتمہ کیا بلکہ جمہوریت کو واپس بحال کیا۔


آج پاکستان میں بھی وہی لمحہ آ چکا ہے! اب یہ جنگ کسی ایک رہنما کی نہیں، یہ جنگ پاکستان کے نظریے اور اس کے مستقبل کی ہے۔ آپ کی ہر آواز، ہر قدم، ہر قربانی اس انقلاب کا حصہ بنے گا۔ ہم سب کا پاکستان، ہمارا خواب، اب حقیقت بننے کے لیے تیار ہے!

https://www.facebook.com/share/v/15fG5GTpv5/

 بریکنگ، عمران خان سے مذاکرات کا اختیار کمیٹی سے واپس لے لیا۔ اڈیالہ جیل میں علی محمد خان سے ملاقات کے ذریعے پیغام، اگر کسی نے بات کرنی ہے تو براہ راست مجھ سے کرے، کسی پارٹی عہدیدار سے نہیں۔ عمران خان_

 پاکستان کے لیڈر عمران خان

عمران خان

پاکستان تحریک انصاف
ڈی او بی05 اکتوبر 1952
عمر72 سال
پیدائشی محللاہور
پیشہسیاستدان
عمران خان کی سوانح عمری۔

عمران خان، 5 اکتوبر 1952 کو پیدا ہوئے، ایک پاکستانی سیاست دان ہیں جنہوں نے 2018 سے 2022 تک پاکستان کے 22ویں وزیر اعظم کے طور پر خدمات انجام دیں۔ ایک سابق کرکٹر اور انسان دوست، خان پاکستان تحریک انصاف (PTI) کے بانی اور چیئرمین ہیں۔ ) سیاسی جماعت۔

لاہور، پاکستان میں ایک پشتون خاندان میں پیدا ہوئے، خان کرکٹ کھیلتے ہوئے پلے بڑھے اور اس کھیل میں مہارت حاصل کی۔ انہوں نے 1971 میں بین الاقوامی کرکٹ میں قدم رکھا اور 1992 کے کرکٹ ورلڈ کپ میں پاکستان کی قیادت کرتے ہوئے ایک لیجنڈری آل راؤنڈر بن گئے۔

1996 میں، خان نے پی ٹی آئی کی بنیاد رکھی، ایک سیاسی جماعت جو فلاحی ریاست اور کرپشن کے خاتمے کی وکالت کرتی ہے۔ انہوں نے انسداد بدعنوانی اور سماجی انصاف کے پلیٹ فارم پر مہم چلائی، پاکستانی عوام میں مقبولیت حاصل کی۔

2018 کے عام انتخابات میں پی ٹی آئی سب سے بڑی جماعت بن کر ابھری اور خان وزیر اعظم منتخب ہوئے۔ انہوں نے شفافیت، احتساب اور سماجی انصاف پر مبنی "نیا پاکستان" بنانے کا وعدہ کیا۔ خان کا بطور وزیر اعظم دور کامیابیوں اور چیلنجوں دونوں سے نشان زد تھا۔ انہوں نے معیشت، صحت کی دیکھ بھال اور تعلیم کو بہتر بنانے کے لیے مختلف اصلاحات شروع کیں۔ تاہم، انہیں معیشت، خارجہ پالیسی، اور انسانی حقوق کی مبینہ خلاف ورزیوں سے نمٹنے کے لیے تنقید کا بھی سامنا کرنا پڑا۔

خان کے دور میں پاکستان کی معیشت کو اہم چیلنجز کا سامنا کرنا پڑا۔ ملک کے بیرونی قرضوں میں اضافہ ہوا، اور کرنسی کی قدر میں کمی ہوئی۔ خان کی حکومت نے بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے بیل آؤٹ پیکج سمیت مختلف معاشی اقدامات پر عمل درآمد کیا، 

خان 5 اگست سے جیل میں ہیں، جب انہیں توشہ خانہ بدعنوانی کیس میں سزا سنائے جانے کی وجہ سے گرفتار کیا گیا تھا۔ ستمبر میں انہیں اٹک جیل سے اڈیالہ جیل منتقل کیا گیا تھا۔

 5 اگست 2023 سے اڈیالہ میں قید عمران خان کو 28 ستمبر 2024 کے مقدمے میں گرفتار کیا گیاہے۔۔۔۔_*🤬